جب بھی باتیں میری ہوں گی
اس میں کچھ کچھ تیری ہوں گی
جگ والوں کو چھوڑو کیا ہے
باتیں اور بتیری ہو ں گی
کیسے آنکھوں میں کاٹو گے
راتیں گھپ اندھیری ہوں گی
لکھنے والوں نے اس جانب
ہجر کی گھڑیاں پھیری ہوں گی
اب لوگوں کے منہ میں باتیں
کچھ تیری کچھ میری ہوں گی
ہم جیسی ناری نے چھت پر
زلفیں آج بکھیری ہوں گی
کس نے قول نبھایا ہو گا
کس نے آنکھیں پھیری ہوں گی
خوشیوں کی کیا حالت ہو گی
جب حالات نے گھیری ہوں گی
تکلیفیں سب اک دن سلمیٰ
ثابت ریت کی ڈھیری ہوں گی