جب بھی مہکے ہوئے گلشن سے ہوا آتی ہے
ایک بھولے ہوئے نغمے کی صدا آتی ہے
میرا کوئی بھی نہیں تجھ سے تعلق لیکن
جانے کیوں تیرے لیے لب پہ دعا آتی ہے
مشک ، صندل و گلابوں کو کہاں ہے وہ نصیب
تیری باتوں سے جو خوشبو ئے وفا آتی ہے
رونے والوں کے نہیں ، ساتھ ہے ان کے دنیا
جن کو ہنسنے کی ہنسانے کی ادا آتی ہے
پھول بھی اپنی مہک پر نہیں رہتے نازاں
تیری زلفوں سے جو ٹکرا کے ہوا آتی ہے
پتھروں سے تو چلو کوئی بھی امید نہیں
ہم کہ انسان ہیں کب ہم کو وفا آتی ہے
یوں تو ہر بات یہ دل بھول چکا ہے کب کا
تیری اک یاد ہے جو دل کو سدا آتی ہے
کتنا بے چین ہے وہ پہن کے ریشم زاہد
راس اس شخص کو کھدر کی قبا آتی ہے