جب میرے دل میں تیری یاد صدا دیتی ہے
رنج و آلام کو کچھ اور بڑھا دیتی ہے
زیر افلاک اس مہتاب جبیں کو قوت
بحر الفت میں طلاطم سا مچا دیتی ہے
دیدہ الفت یاراں ہو میسر تو مجھے
حبس غربت کی اسیری بھی مزا دیتی ہے
میں نے ہر خواب سے تعبیر تلک دیکھا ہے
زندگی بعد مصیبت ہی جزا دیتی ہے
سنگ رستے کی رکاوٹ ہیں مگر چل احسن
اک ہستی تجھے ہر لمحہ دعا دیتی ہے