جبکہ اولاد کو جگ میں لاتی ہے ماں
آہ کتنی مشقت اٹھاتی ہے ماں
شِیر جس کو بتاتے ہیں اہلِ جہاں
خون اپنے جگر کا پلاتی ہے ماں
گیلے بستر پہ سوتی وہ خود مگر
سوکھے بستر پہ تجھ کو سلاتی ہے ماں
خود ٹھٹر جائے سردی میں دیگر یہ بات
تجھ کو لیکن رضائی اُڑھاتی ہے ماں
نیند آتی نہیں جب تجھے خوف سے
گود میں لے کے لوری سناتی ہے ماں
نظرِ بد لگ نہ جائے کہیں غیر کی
اپنے آنچل میں تجھ کو چھپاتی ہے ماں
شیرخواری میں جب چلنا آتا نہیں
تجھ کو انگلی پکڑ کر چلاتی ہے ماں
چلتے چلتے اگر گِر پڑا تو کہیں
بڑھ کے آغوش میں پھر اٹھاتی ہے ماں
چھپ کے دیوار کو تو کریدے اگر
مٹی کھانے سے تجھ کو بچاتی ہے ماں
خصلتِ بد کی اصلاح کرتی ہے اور
اچھی عادات تجھ کو سکھاتی ہے ماں
جیسے اس میں ہو خود اس کا ذاتی مفاد
ناز اولاد کے یوں اٹھاتی ہے ماں
دوڑی آتی تھی ماں، جب بلاتا تھا تو
تو نہیں آتا ہے، جب بلاتی ہے ماں
تو ہی دیتا ہے طعنے اسے روز و شب
اپنے احسان کو کب جتاتی ہے ماں
پھول جیسے ملے ہوں برائے سنگھار
زخم کھا کر بھی یوں مسکراتی ہے ماں
جبکہ کرتی ہے اولاد گستاخیاں
صرف چپکے سے آنسو بہاتی ہے ماں
جان کا روگ بنتے ہیں جب اس کے چاند
اپنی پلکوں پہ تارے سجاتی ہے ماں
لاکھ اس کو ستاتی ہے اولاد سب
پھر بھی کب بددعا لب پہ لاتی ہے ماں
اس کو کرتا ہے تو ماسیوں کے سپرد
جب ضعیفی کی منزل کو پاتی ہے ماں
جب توجہ سے محروم ہوتی ہے وہ
ہو کے مایوس دنیا سے جاتی ہے ماں
تھک کے آسودہ ہو جاتی ہے قبر میں
راحتِ دائمی ایسے پاتی ہے ماں
جیتے جی قدر کر لو اثرؔ ماں کی تم
جا کے واپس نہیں جگ میں آتی ہے ماں