جتنے درد کے قصے تیری ، باتوں میں رہتے ہیں
اتنے درد تو ہم لئے ، ہاتھوں میں رہتے ہیں
بُھلا دینے پر غم یہ متفق نہیں ہوتے
ہمارے دل میں جزبے بھی ، زاتوں میں رہتے ہیں
مراسم اس سے اب بھی ہیں مگر ملتے ہیں اسطرح
جیسے اجنبی دو پہلی سی ، ملاقاتوں میں رہتے ہیں
الفتِ محبوب میں تر رہتے ہیں یوں عاشقوں کے دل
جیسے پرندے بھیگے سے ، برساتوں میں رہتے ہیں
وہ کیا جانے عذاب بدلتے موسموں کا
جو سائبانوں میں پلتے ہیں ، چھاتوں میں رہتے ہیں
جو چہرے دن کے اجالوں میں تابناک دِکھتے ہیں
دیکھ جاکر کبھی وہ کسطرح ، راتوں میں رہتے ہیں
تو ڈھونڈتا ہے صفتِ اسلاف جس جماعت میں راہب
وہ جماعت والے اب کئی ، جماعتوں میں رہتے ہیں
عالم میں جہاں دیکھو ، دِکھتے ہیں یہ تنہا
اگرچہ مسلمان براعظم ، ساتوں میں رہتے ہیں
تجھے تردد ہے کلام کے معتبر ہونے میں اخلاق
یہاں تو آلاتِ موسیقی بھی اب ، نعتوں میں رہتے ہیں