جذبہ نگاہِ عشق کا بس ہو بڑھانے کا
نا آشنائے درد کو بسمل بنانے کا
احساس ہو گیا ہے ابھی دل کے لگنے کا
ہر لمحہ چوٹ کھانے تو دل ٹوٹ جانے کا
دل سے ملا کے دل کو نئی راہ ہم نے دی
آساں نہیں ہے کام تو دل کو ملانے کا
ہر حال میں ہماری تو کوشش یہی رہی
ہر بے وفا کو اب تو وفا ہی سکھانے کا
ایسی نگاہ ہو بھی کہ بدلے ہوا کا رخ
ایسا بھی ذوق ہوجائے اب تو زمانے کا
کب تک چلے گی جھوٹ کی کشتی سنبھل جاؤ
بس حق کا اک تھپیڑا ہے کافی ڈبانے کا
کیوں مایوسی ہی چھائی ہے ہر ایک پر یاروں
اسلاف کا نمونہ ہے عزت بچانے کا
حسرت یہ اثر کی ہے کہ الفت بڑھی رہے
اس کے لئے مشن بھی ہو نفرت مٹانے کا