جس دن پہلا شعر لکھا اک شجرے کا آغاز ہوا
اپنے دل کی بستی اک اور جہاں آباد ہوا
کتنے موسم بیت گئے ہیں آزادی کے سائے میں
اپنا بھائی ہی قیدی ہے اور اپنا ہی صیاد ہوا
کیا تقدیر لکھی ہے تو نے دیس میرے کی اے مالک
غیروں سے آزاد ہوا ، اپنوں سے نہ آزاد ہوا
غیروں سے کیا شکوہ کرنا مطلب دوست زمانے میں
اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں گھر میرا برباد ہوا
مجھ کو تو معلوم نہیں آدابِ محبت کے مبہم
میں تو تیرے عشق میں جانا ویسے ہی فرہاد ہوا
تو نے کہا تھا عشق میں کیسے جی سکتا ہے کوئی بھلا
تجھ کو بھول گیا اور تیرا قول ہمیشہ یاد ہوا
دل کے ٹکروں کو تو خالد کہاں کہاں سے جوڑے گا
ٹوٹ گیا یہ شیشہ کیسے ، علم یہ تیرے بعد ہوا