جس سمت میں نے آواز دی، اس سمت تو سنا ہے ہوا ہی نہیں
سماعت تو ان کی کمال کی ہے، پر اپنی تو کوئی صدا ہی نہیں
کیا کہوں کیسے بچھڑ گیا تھا، سر راہ ہی جو میں بھٹک گیا تھا
میرے ساتھ جو چلے تھے سب راہزن، مجھے رہبر کوئی ملا ہی نہیں
میں ناکام ہو کے جو مایوس ہوا، بے سبب نہیں وجہ بھی ہے
جس پھول کی خاطر عمر لٹا دی، وہ پھول کبھی پھر کھلا ہی نہیں
میں نے تاریک غار میں جو سورج کو دیکھا، ملا حکم کہ یہ غار چھوڑو
مجھے سزا بھی ملی میرے جرم کے مطابق، یہ سزا تو کوئی سزا ہی نہیں
میرا دل بھی ہے میرے گھر کی مانند، جسے مکیں نے چھوڑا تو پھر نہ لوٹا
ویراں ہوا یوں تیرے جانے کے بعد، کہ کوئی اس میں پھر بسا ہی نہیں
میں عجیب دائرے میں ہوں محو سفر، کہ فاصلہ نہ کٹے بس چلتا ہی رہوں
کس کے قدموں کے نشان دیکھوں، یہاں سے کبھی کوئی گزرا ہی نہیں
سنا تھا وقت لگا دیتا ہے مرہم، اس امید پہ وقت گزارا ہے بہت
اک زخم لگا تھا جو برسوں پہلے، وہ زخم کبھی پھر بھرا ہی نہیں