جسے کھوجتی ہے تیری نظر کبھی آر سے کبھی پار سے
وہ نکل گیا ہے مدار سے، تیری زندگی کے حصار سے
جس کا حسن بکھر گیا جو خزاں کے روپ میں ڈھل گیا
اسے اب نہیں کوئی واسطہ کسی ابر سے یا بہار سے
جو مسافتوں کی تلاش میں کئی منزلیں بھی گنوا گیا
اسے کیا ملے گا سکون میں اسے کیا غرض ہو قرار سے
جو بہار کی سحر میں بھی رہا قفس کے حصار میں
بھلا اب خزاں کی شام میں اسے کیا ملے گا فرار سے
یہیں کہیں پہ مقیم تھا شاید یہیں پہ قیام تھا
کسی کارواں کا پتا ملا ہے اٹھتی ہوئی سی غبار سے
کسی روشنی کی تلاش میں کئی بار ایسا بھی ہوا
جگنؤوں کبھی دیپ سے میں کبھی ملا ہوں شرار سے
کس حال میں، کیسا ہے وہ عظمٰی کبھی سوچا بھی ہے
اپنے پیاروں سے دور ہے غربت میں ہے جو دیار سے