جو میری حسرت کو نہ کر سکے
پورا وہ منعم کس کام کا
جو ظاہر مے بھگوان باطن مے پتھر
وہ صنم کس کام کا
گوہر یاقوت ہوں آنکھیں برگ گل ہو چہرہ مگر
دیکھنے سے ہو قاصر جو وہ چشم زدن کس کام کا
ترک میراث ہو جائے جس حاکم کے ہاتھ سے
اس سلطنت مے زود و رضا کا جنم کس کام کا