جنوں میں ، آگ کا دریا نظر نہیں آتا
وفا کے قیس کو صحرا نظر نہیں آتا
وہ جنکو فاصلے ہر پل ڈرائے رکھتے ہیں
انہیں کبھی کوئی رستہ نظر نہیں آتا
عجیب شہر ہے مردوں سے بات کرتا ہے
کوئی بھی شخص یاں زندہ نظر نہیں آتا
یہ چند لوگ میری دسترس میں ہیں لیکن
کوئی بھی ان میں یاں اپنا نظر نہیں آتا
یہ کون ہے جو مجھے مشکلوں میں تھامے ہے
یہ شخص مجھکو شناسا نظر نہیں آتا
وہ جنکے گھر میں ہوس کے چراغ جلتے ہوں
انہیں گلی میں اندھیرا نظر نہیں آتا
زمانہ لاکھ برائی کرے مگر اے دوست
مجھے یہاں کوئی تجھ سا نظر نہیں آتا
یہ دشت دور سے بنجر ضرور ہے لیکن
کوئی بھی شخص یاں بھوکا نظر نہیں آتا
شجر مثال ہے چھاؤں نثار کرتا ہے
یہ اسلئیے کبھی پیاسا نظر نہیں آتا
زبان خلد میں کس سے کلام کریں کہ یاں
کوئی بھی ہمکو فرشتہ نظر نہیں آتا
جو شخص لوگوں کی خوبی نظر میں رکھتا ہو
اسے کسی کا بھی دھوکا نظر نہیں آتا
عجیب راز چھپا ہے ہر ایک سینے میں
جو جیسا ہے کبھی ویسا نظر نہیں آتا
اشعار وحی کی مانند اترتے رہتے ہیں
کہ جب سکون کا لمحہ نظر نہیں آتا
یہ لوگ کسطرح رستے بدل رہے دیکھو
یہ مجھ کو میرا قبیلہ نظر نہیں آتا
بہت زرخیز تھی چاہت کیلیئے دل کی زمیں
اور اب کہیں کوئی سبزہ نظر نہیں آتا