ساری باتوں پہ سیاست نہیں کی جاسکتی
اس پہ قربان روایت نہیں کی جاسکتی
یہ ضروری نہیں ہر بات پہ لڑتے ہی رہیں
سب ہی انسان ہیں نفرت نہیں کی جاسکتی
جو بھی رنجش ہے چلو آؤ ختم کرتے ہیں اب
روٹھنے میں تو یوں شدت نہیں کی جاسکتی
جگ ہنسائی کے سوا اور ملے گا ہی کیا
اپنی خود ہی تو یوں ذلت نہیں کی جاسکتی
آؤ اس بات کو سوچیں کہ بھلا اب بھی کیوں
ہم سے اپنوں کی کفالت نہیں کی جاسکتی
جنگ تو خود ہی مسائل کو جنم دیتی ہے
اس کو کرنے کی حماقت نہیں کی جاسکتی
جنگ کر کے بھی تباہی کے سوا کیا ہو گا
اپنی نسلوں سے عداوت نہیں کی جاسکتی