جنگل مجھ سے بات تو کردیکھ کہاں سے آیا ہوں

Poet: By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKI

جنگل مجھ سے بات تو کر
دیکھ کہاں سے آیا ہوں !
سناٹا ہے چاروں جانب اور ہوا کی سرگوشی میں
ٹوٹے ٹوٹے سے کچھ جملے
رات گئے تک ہونے والی بارش کے قطروں کی صورت
پتہ پتہ ٹپک رہے ہیں

تین برس اور سولہ دن پہلے کی گُزری شام کوئی
یہیں کہیں پر رُکی ہوئی ہے
اور اک گہرے سایوں والے پیڑ پہ اب بھی
ہم دونوں کے نام کھدے ہیں
(اور اک دل ہے جس میں کوئی تیر ترازو تب سے ہے)
جنگل، تیرے سامنے اُس دن ہم نے کتنی باتیں کی تھیں
تجھ کو بھی وہ یاد تو ہوں گی
سب نہ سہی پر تھوڑی تھوڑی
یہ جو ہوا کی سرگوشیہے اس کے ٹوٹے جُملوں جیسی
ابھی ابھی اس تھمنے والی بارش کے ان قطروں جیسی
تین برس اور سولہ دن کا اک اک لمحہ لایا ہوں
جنگل مجھ سے بات تو کر، دیکھ کہاں سے آیا ہوں
 

Rate it:
Views: 364
16 Nov, 2013