جنگل میں گھومتا ہے پہروں فکرِ شکار میں درندہ
یا اپنے زخم چاٹتا ہے تنہا کچھار میں درندہ
باتوں میں دوستی کا امرت سینے میں زہر نفرتوں کا
پربت پہ پھول کھل رہے ہیں بیٹھا ہے غار میں درندہ
ذہنی یگانگت کے آگے تھیں خواہشیں خجل بدن کی
چٹان پہ بیٹھا چاند تاکے جیسے کنوار میں درندہ
گاؤں سے شہر آنے والے ندی پہ جیسے پیاسے
تھا منتظر انھیں کا کب سے اک روزگار میں درندہ
مذہب نہ جنگ نے سیاست جانے نہ ذات پات کو بھی
اپنی درندگی کے آگے ہے کِس شمار میں درندہ