جو جہاں نے غم خواری سنسار کو دے دی
میں نے وہی شفقت اپنے گذار کو دے دی
اس سحر و کوفت میں انجان ہوکر
اچھی بھلی زندگی انتظار کو دے دی
وہ کہتا ہے قوی میں شعلہ زن آج بھی
اوچی ان کی عظمت ہم نے دستار کو دے دی
اپنے کیئے پہ خجالت خاص تو نہیں
کہ سب پرواہ میرے پیار کو دے دی
اب لوٹ چلیں گے ہر ردم چھپا کر
وسعت سے بچی آواز پھر اظہار کو دے دی
کس ہوا کی تھپکی میرے گالوں سے ٹکرائی
رات نے مجھ سے چراکر نیند یار کو دے دی