جو درَ جانَ جاں سے اٹھتا ہے
وہ وفا کے جہاں سے اٹھتا ہے
ظلم کی حد نہ پار کر مالی
شور سا گلستاں سے اٹھتا ہے
حسن پھر عشق کو پرکھتا ہے
جوں ہی وہ امتحاں سے اٹھتا ہے
ملک میں ہر فساد اے لوگوں
پیشوا کے بیاں سے اٹھتا ہے
آہ تصدیق جب بھرے مفلس
حشر اک آسماں سے اٹھتا ہے