جو دور سے آتا ہے نظر دشت و بیاباں
وہ نزد سے دیکھو تو ہے خوابوں کا گلستان
اک سمت ہے پھیلی ہوئی کوہسار کی تصویر
اک اور ہے بکھری ہوئی سڑکوں کی کہکشاں
چشمے کہیں چلتے ہیں پہاڑوں کی جبیں پہ
باغات کہیں سبز کشادہ و فراواں
قدرت نے کہیں خوب تراشا ہے شہر کو
انسان نے کہیں بخشا اسے حسن بہشتاں
دامن میں کس کوہ کے تفریح کے خزانے
روشن کوئی وادی بنی وادئ چراغاں
ہے علم سے معمور معطر فضا اسکی
ہر کوچہ ہے تعلیم کی آواز سے شاداں
صبحیں کہیں خاموش ہیں شامیں بھی کہیں چپ
" دوں نام اگر اس کو تو ہے"شہر خموشاں
ہے مسجد فیصل کہ جسے دیکھ کے سوچیں
کس رتبۂ فن پہ ہے زر دست مسلماں
کس حسن رطوبت سے نگاہوں کو ہے تسکیں
جس سمت بھی دیکھو ہے نظارہ ہاے خوباں
مشرق کے کہیں رنگ ابھرتے نظر آیئں
انداز کہیں مغربی ہوتے ہیں نمایاں
ہر پہلو نیا اسکا ہر انداز الگ ہے
دیکھوں تو فقط شہر ہے سوچوں توہوں حیراں
تو حسن وطن بھی ہے اخوت کی بنا بھی
الله تری خاک کورکھے سدا فرحاں !