اپنی زندگی میں خزاں نا بہار ہے
نا ہی میراکوئی دوست یار ہے
پائی پائی چکا دی ہے سب کی
اب میرے سر نا کوئی ادھار ہے
میری قلم سے جو دشمن پہلے بچ گیا
اب وہ میرے ایک شعر کی مار ہے
وہ ظالم جو مجھے دیوانہ کہتی ہے
وہ کیا جانے میرا دل اس پہ نثار ہے
کاش ایک بار تو نے آزمایا ہوتا
تیری خاطر اصغر جان دینے کو تیار ہے