اپنی حاجات کسی سے کبھی کہہ کر دیکھو
اور پھر اس کے بدلتے ہوئے تیور دیکھو
آستانوں پہ جھکو اور نہ چومو پتھر
اپنی ہی ذات میں عرفان کے منظر دیکھو
اپنے انداز نظر کو ذرا وسعت دے کر
قطرہ اشک ندامت کے بھی جوہر دیکھو
صرف اک پیکر خاکی کو نہ سب کچھ جانو
جو محرک ہے دروں اس کے وہ عنصر دیکھو