جو نامور تھا پہلے وہ بے نشاں ہوا ہے
دنیا کا یہ فسانہ پانی کا بلبلا ہے
دنیا ہے چند روزہ بس قبر ہی ٹھکانا
آیا جو ہاتھ خالی بس خالی ہاتھ جانا
پھندے سے موت کے ہی نہ کوئی بچ سکا ہے
ننانوے کا چکر میں سب کا جی ہے الجھا
دنیا میں دل لگا ہے ہو کیوں نہ فکرِ عقبیٰ
سود و زیاں کا اب کیوں احساس مٹ گیا ہے
آباد تھے مکاں جو کھنڈر وہ سب پڑے ہیں
کتنے چلے گئے ہیں کچھ دن ہی گِن رہے ہیں
کب سانس آخری ہو کس کو نہ یہ پتہ ہے
کتنے جنازے تو نے ہاتھوں سے خود اٹھائے
دفنائے کتنے مردے ہاتھوں سے تو نے اپنے
دنیا کے اے مسافر غفلت میں کیوں پڑا ہے
قارون کا خزانہ کچھ بھی نہ کام آیا
فرعون نے کیا تھا دعویٰ خدائی ہی کا
جب موت نے دبوچا تب ہوش اڑ گیا ہے