جو پوری نہ ہوئیں ان حسرتوں نے مار ڈالا ہے
کہوں کیا اپنے خوں کی نفرتوں نے مار ڈالا ہے
انا بھی اور خود داری بھی ہے اپنی طبعیت میں
مجھے تو ایسی ہی کچھ عادتوں نے مار ڈالا ہے
میں لوگوں کے لیے اب عامیانہ شعر کہتا ہوں
مرے فن کو تو حاصل شہرتوں نے مار ڈالا ہے
نئی کچھ بات کہنے کے لیے بے چین رہتا ہے
ترے فن کو بے معنی جدتوں نے مار ڈالا ہے
گریباں چاک ہوتا اور اپنی نہ خبر ہوتی
جنوں کے بن مجھے تو وحشتوں نے مار ڈالا ہے
غریبوں سے تو ان کی مفلسی نے زندگی چھینی
امیروں کو زیا دہ عشرتوں نے مار ڈالا ہے
نجانے کتنے موسم زندگی میں تیرے بعد آئے
جو گزریں بن ترے ان مدتوں نے مار ڈالا ہے