جو پھول پیدا ہوئے ہوں باد خزاں سے
ان میں رنگ اور خوشبو آئے کہاں سے
جو گلستاں اجڑ گیا پھولوں کے موسم میں
ایسے ویراں چمن میں بہار آئے کہاں سے
کہنہ حیات کہنہ خیالات کہنہ روایات ہیں
ایسے میں کوئی کلام نو لائے کہاں سے
صدیوں پرانی کہنہ روایات کے باسی
تازگی اپنے سخن میں لائیں کہاں سے
حسین آنکھوں کے سمندر میں دل ڈوبتا گیا
اور واپسی نہ چاہے اس بحر بیکراں سے
طوفان دل سے آشنا ہونے کے بعد بھی
رہائی نہیں چاہتا اس قید لا مکان سے
ہم تم کو جانتے ہیں تم ہم کو جانتے ہو
انجان کیوں رہے صاحب میرے بیاں سے
عظمٰی دل کی خاموشی کا حال نہیں پوچھو
کیا شورشیں برپا ہیں طوفان بے زباں میں