Add Poetry

جو کل سماج میں تھے مسائل ہیں آج بھی

Poet: dr.zahid Sheikh By: Dr.Zahid Sheikh, Lahore Pakistan

جو کل سماج میں تھے مسائل ہیں آج بھی
کچھ اور بڑھ گئی ہے مگر داستان غم
انساں نے اپنے جسم کو آسائشیں تو دیں
کچھ اور گہرے ہو گئے روحوں کے آج زخم

کوئی بھی عصمتوں کا محافظ نہیں رہا
پہلے سے بڑھ کے آج ہیں عشرت کدے یہاں
مفلس شباب کوچوں میں بکتا ہے آج بھی
ماتم زدہ ہیں خود پہ بہت لڑکیاں جہاں

ہر سمت سازشوں کے ہیں جالے بنے ہوئے
شامل ہمارے خون میں ہے بس منافقت
دولت کے سامنے ہے ہر اک شخص سجدہ ریز
اخلاص دل سے دور تو ذہنوں میں مادیت

سب رشتہ داریاں بھی دکھاوا ہیں اب یہاں
خوں اپنے خون کے لیے بنتا ہے اک عذاب
ہر موقع پر نمود و نمائش کے سلسلے
ماتم پہ بھی لباس پہنتے ہیں لاجواب

اخلاق صرف کتاب کی حد تک ہی رہ گیا
عملا“ وجود اس کا کہاں ہے بتائیے
ہم نے سنا ہے اہل وفا ہیں ابھی یہاں
ہوں گے ضرور پر ذرا ہم کو دکھائیے

بڑھتے ہی جا رہے ہیں جرائم کے سلسلے
ہر شہر اور گاؤں میں اڈے ہیں جرم کے
دہشت کے واقعات کی کچھ حد نہیں رہی
جھک جائے جن کے ذکر سے منہ اپنا شرم سے

الللہ کی زمین کے حاکم جاگیر دار
بدلا کہاں ہے آج بھی دہقان کا نصیب
کھا کھا کے پھولتے ہی چلے جا رہے ہیں وہ
اور دانہ دانہ ترس رہے ہیں کساں غریب

محنت کا ہے نصیب وہی میرے وطن میں
محنت کشوں کی آج بھی مشکل ہے زندگی
سرمایہ دار جشن مناتے ہیں عمر بھر
محنت کشوں کی عید بھی ہوتی ہے دکھ بھری

مذہب کے نام پر ہے فریب فقیہہ رواں
کچھ اور بھی دراز ہیں فرقوں کے سلسلے
سب اپنے اپنے مکتبئہ فکر کے اسیر
گھمبیر ہو رہے ہیں مسالک کے مسئلے

جمہوریت کی آڑ میں آمر ہیں حکمراں
اور حرص اقتدار بھی پہلے سے کم نہیں
سطوت ہے حاکموں کے ایوانوں میں آج بھی
اور مفلسوں کی مفلسی کا ان کو غم نہیں

جو کل سماج میں تھے مسائل ہیں آج بھی
کچھ اور بڑھ گئی ہے مگر داستان غم

Rate it:
Views: 670
16 Feb, 2013
Related Tags on General Poetry
Load More Tags
More General Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets