جو کل سماج میں تھے مسائل ہیں آج بھی
کچھ اور بڑھ گئی ہے مگر داستان غم
انساں نے اپنے جسم کو آسائشیں تو دیں
کچھ اور گہرے ہو گئے روحوں کے آج زخم
کوئی بھی عصمتوں کا محافظ نہیں رہا
پہلے سے بڑھ کے آج ہیں عشرت کدے یہاں
مفلس شباب کوچوں میں بکتا ہے آج بھی
ماتم زدہ ہیں خود پہ بہت لڑکیاں جہاں
ہر سمت سازشوں کے ہیں جالے بنے ہوئے
شامل ہمارے خون میں ہے بس منافقت
دولت کے سامنے ہے ہر اک شخص سجدہ ریز
اخلاص دل سے دور تو ذہنوں میں مادیت
سب رشتہ داریاں بھی دکھاوا ہیں اب یہاں
خوں اپنے خون کے لیے بنتا ہے اک عذاب
ہر موقع پر نمود و نمائش کے سلسلے
ماتم پہ بھی لباس پہنتے ہیں لاجواب
اخلاق صرف کتاب کی حد تک ہی رہ گیا
عملا“ وجود اس کا کہاں ہے بتائیے
ہم نے سنا ہے اہل وفا ہیں ابھی یہاں
ہوں گے ضرور پر ذرا ہم کو دکھائیے
بڑھتے ہی جا رہے ہیں جرائم کے سلسلے
ہر شہر اور گاؤں میں اڈے ہیں جرم کے
دہشت کے واقعات کی کچھ حد نہیں رہی
جھک جائے جن کے ذکر سے منہ اپنا شرم سے
الللہ کی زمین کے حاکم جاگیر دار
بدلا کہاں ہے آج بھی دہقان کا نصیب
کھا کھا کے پھولتے ہی چلے جا رہے ہیں وہ
اور دانہ دانہ ترس رہے ہیں کساں غریب
محنت کا ہے نصیب وہی میرے وطن میں
محنت کشوں کی آج بھی مشکل ہے زندگی
سرمایہ دار جشن مناتے ہیں عمر بھر
محنت کشوں کی عید بھی ہوتی ہے دکھ بھری
مذہب کے نام پر ہے فریب فقیہہ رواں
کچھ اور بھی دراز ہیں فرقوں کے سلسلے
سب اپنے اپنے مکتبئہ فکر کے اسیر
گھمبیر ہو رہے ہیں مسالک کے مسئلے
جمہوریت کی آڑ میں آمر ہیں حکمراں
اور حرص اقتدار بھی پہلے سے کم نہیں
سطوت ہے حاکموں کے ایوانوں میں آج بھی
اور مفلسوں کی مفلسی کا ان کو غم نہیں
جو کل سماج میں تھے مسائل ہیں آج بھی
کچھ اور بڑھ گئی ہے مگر داستان غم