جو گل بکھیرے وہ کانٹوں کو بو نہیں سکتی
مری نوائے سخن جھوٹ ہو نہیں سکتی
مری نوا کا ترازو ہے عدل پر قائم
مری نوا کبھی انصاف کھو نہیں سکتی
مجھے جہاں میں دکھوں کو ابھی مٹانا ہے
ہوں دل فگار ، نوا میری رو نہیں سکتی
فریب جاگ رہا ہے تو سو بھی جائے گا
مگر نوائے حقیقت تو سو نہیں سکتی
تمھارے جھوٹ کی بارش سنو سدا کے لیے
مری نوا کی صداقت کو دھو نہیں سکتی