جو باہمی گل و بلبل میں پیار باقی ہے
چمن میں آج بھی رنگ بہار باقی ہے
نہیں سہی جو مرا تجھ پہ اختیار نہیں
ابھی بھی مجھ پہ ترا اختار باقی ہے
جنازہ لے کے ذرا کوئے یار سے چلنا
ہمارے ذمہ کسی کا ادھار باقی ہے
چلے گا سلسلہ یونہی غم و خوشی کا سدا
جہاں میں گردش لیل و نہار باقی ہے
وہ چار پھول چڑھا دیتے ہیں نوازش ہے
کرم سے ان کے نشان مزار باقی ہے
بگڑ چکی تو ہے تہذیب لکھنؤ لیکن
نفاستوں کا ابھی بھی شعار باقی ہے
کہو کہ کرتے رہیں تہمتوں کے وار پہ وار
ابھی حسن کا دل داغدار باقی ہے