آج اک غریبہ کی پھول جیسی دختر کی
بات ھو گئی پکی
بات کیا ہوئی ‘ دل پر اک پہاڑ ٹوٹا ہے
ساتھ اک لفافہ ہے جس میں ایک کاغذ پر
باشعور بستی کے بے شعور لوگوں نے
اپنی ذہنی پستی کو ثبت کر دیا اس پر
اپنی خواہش و لذت کے سکون کی خاطر
اک غریب اور نادار باپ کو جھنجھوڑا ھے
اس کو اس کی رحمت کی اک سزا سنادی ھے
جانے کس طرح اس نے جوڑ جوڑ کر رکھا
ایک ایک پیسے کو
پر محال ھے ان میں خواہشات کی تکمیل
ذہن کی پریشانی روح کی گرانی ھے
یا خدا یہ دنیا کی کس طرح کی خوشیاں ہیں
ایک گھر میں فرحت ھے
ایک گھر میں غربت ھے
ایک دل کہ شاداں ھے
ایک دل پریشاں ھے
کیا یہی زمانے کے عدل کا تقاضہ ھے
اک غریب والد نے اپنا دامنِ عزت
تار تار ہونے سے اس طرح بچایا ھے
سود جیسی لعنت کا طوق ڈال کر اس نے
اپنی لاٍڈلی اپنی پھول جیسی بیٹی کا
آج گھر بسایا ھے
پروقار سی محفل میں آج جتنی خلقت ھے
سب مگن ہیں خوشیوں میں
یوں تو ظاہری سب نے اس کو دی مبارک باد
بلیقیں کہ اس کا بھی دل کہ ھو گیا ھو شاد
باشعور بستی کے باشعور لوگوں میں
کون جان سکتا ھے
اس کے بوڑھے کاندھوں پر
ایک ذمہ داری کا اور بوجھ باقی ھے
بارِ قرض کی صورت