جینا مرنا، مر کر اٹھنا عادی ہو چکے
تنہائی کے رنگوں کے بھیدی ہو چکے
انسانوں کی بستی میں انسان ناپید ہوئے
چلتے پھرتے انسان اب پتھر ہو چکے
لالچ کے سمندر، ہوس کی اک آندھی میں
کچھ تو ڈوبے اور کچھ بگولا ہو چکے
جیب بھرے تو پھر پیتل ہیرے جیسا ہے
خالی جیب ہیرے بھی اب پیتل ہو چکے
انسان کہلانے والے چھوڑ کے قدریں ساری
اک مدت ہوئی زہریلے سے سانپ ہو چکے
انسانوں کا ہجوم لیکن تنہا رہنا اچھا ہے
کہ ساتھ چلنے والے اب بچھو ہو چکے
شکوہ تو ٹھیک لیکن سوچ اسی شہر میں
انسان ابھی بھی ہیں ان کے ڈنکے ہو چکے