حرفِ اول ہے ابی ،ذکرِ مئوخر تو نہیں
میری آنکھوں نے جو دیکھا ہے وہ منظر تو نہیں
رونقِ فرد ضروری ہےکسی گھر کے لیے
چار دیواریئ بے طاق کوئی گھر تو نہیں
جس محبت کی مسافت پہ میں چل نکلا ہوں
اس مسافت میں کوئی میرے برابر تو نہیں
میں سہولت کے لیے اس کو میسر ہوا ہوں
وہ سہولت کے لیے مجھ کو میستر تو نہیں
ایک میں ہوں کہ مجھے ضبط کی عادت سی ہے
ورنہ ہر بات تری مجھ پہ مئوثر تو نہیں
بات کا لہجہ بدل جانے سے کچھ فرق نہیں
بات دیکو، کہ کہیں بات میں چکر تو نہیں