حریف تھا میرا مگر دِقّت ہوئی بھُلانے میں
اِک عُمر گزری خود کو بلندی پر لے جانے میں
پہلے محبت کی رنگینیوں سے آراستہ تھا جیون
پھر مایوسیوں سے جا لگے اپنے اپنے ٹھکانے میں
وہ اُلجھنیں دیتا گیاٗ ہم شمار کرتے گئے
ہاتھ تھا اسی کا مجھے کامیاب بنانے میں
کچھ وقت نے بھی دئیے پھر سہارے ہم کو
کچھ ہم بھی کھو گئے جنگل کو جنت سا سجانے میں
رخصت کر دیں میں نے سب غم کی مجبوریاں
فلک سے ستاروں کو زمیں پہ لانے میں
ہر دن نئی گھبراہٹیںٗ ہر دن نئی آفتیں
جا ! مَیں نہیں آتی یہ دنیا بسانے میں
تم لاکھ کہو! ہم دل سے نہیں اُتریں گے
کچھ وقت تو لگے گا تمہیں یقیں دلانے میں