حسن مری دسترس میں آ نہیں سکتا
تجھ کو میں اپنا کبھی بنا نہیں سکتا
میں ترے انکار کی چتا پہ ہوں سویا
حسرت_ خوابیدہ کو جگا نہیں سکتا
حالت_ وحشت میں ڈھونڈتا ہے سکوں کو
دشت نگر میں تو چین پا نہیں سکتا
دیکھ محبت کا کھیل کھیل نہیں ہے
ڈر ہو جسے ہار کا نبھا نہیں سکتا
کتنی امیدیں نگاہ میں پڑی ہیں سیف
میں کہ تجھے چاہ کر بھلا نہیں سکتا