یہ بیوپار جو حسن کے ہیں پجاری
مصنوعی جن کی ہے سب آہ و زاری
یہ ظالم سفاک سنگدل ہوتے ہیں
یہ خاکی تو ہیں پر فطرت میں ناری
محبت کا مطلب یہ کب جانتے ہیں
محبت کے احساس سے ہیں یہ عاری
دوشیزہ حسیں جب کوئی دیکھ لیں یہ
تو ان کے دلوں میں بڑھے بے قراری
مسلتے ہیں فطرت کے رنگوں کو ایسے
کہ فریاد کرتی ہے بے بس بے چاری
ظاہر بھی ظالم ہے باطن بھی ظالم
یہ تلوار ایسی جو کہ ہو دو دھاری
تعلق کوئی بھی نہ ان سے رکھو تم
دشمنی بھی بری اور بری ان کی یاری
جو کچھ چاہا ان کو وہی مل گیا ہے
انہوں نے تو کوئی بھی بازی نہ ہاری
سنا ہے کہ منصف ہے وہ عرش والا
نجانے کب آئے گی ان کی بھی باری
امن تم خدا سے نہ مایوس ہونا
دیکھنا ان کا انجام آخر ہے خواری