حسین چہرے چھپا کے رکھو
نظر سے سب کی بچا کے رکھو
حوس زدہ ہیں آنکھیں سب کی
سب اپنی عزت بچا کے رکھو
ہے کون کس کا؟ کسے پتا ہے
ہیں راز جتنے دبا کے رکھو
عدم بھی اب تو ہے زندگی سی
تو کیوں نہ اس کو بلا کے رکھو
زہر کا پیالہ ہے میں نے پینا
اے ساقی اب تو سجا کے رکھو
ہے باغیانہ ہماری فطرت
تم اپنا دامن بچا کے رکھو
ہے تیرگی سی نگر نگر میں
چراغِ دل سب جلا کے رکھو
سیاہ شب بھی گزر چلے گی
دلوں میں جذبے جگا کے رکھو
ہے جو تمھارا اس ہی کی خاطر
متاعِ الفت لٹا کے رکھو
زمانہ الفت شناس ہو تو
فصیلِ چاہت بڑھا کے رکھو
ہے اک احسن دیوانہ! پاگل
تم اس سے دامن چھڑا کے رکھو