خالق ہے تو ایک ہی سب کا مالک بھی تو ایک ہی ہے
رازق بھی تو ایک ہے سب کا وہ ہی تو پرَجا پَتی ہے
جگ میں ہے کوئی نِردَھن اور کوئی تو دھنوان بھی ہے
دھن دولت جاگیر نہ کچھ بھی بس کَرْموں سے کوئی دھنی ہے
جگ میں کیسی ریت چلی ہے اپنی ہی تو سب کو پڑی ہے
نہ کوئی تو پریت جَگَت میں یہ کیسی ادبُھت گھڑی ہے
مانوتا کے پردے میں تو دانوتا کا کھیل ہے سب کچھ
مانو گر بن جائیں دانو تو جگ میں ہی اشانتی ہے
جب نیائے کا ہوجائے ہی چلن توجیون سب کا سکھ پرن ہو
اَنِّیائے کا جب ہوگا ہی چلن تو جگ میں نہ کوئی سکھی ہے
اپنا من ہو جائے نِرمل تو جگ بھی ہو جائے اُجول
جب من اپنا ہو ہی مَلِن تو جیون اپنا ہی تو دکھی ہے
یہ باتیں ہیں اثر کی ادبُھت سب تو ہیں اس پر سہمت
اس سے جیون ہو جائے پَرَسَنّ اس میں ہی تو شانتی ہے