خاموش فضا تھی کہیں سایہ بھی نہیں تھا
اس شہر میں ہم سا کوئی تنہا بھی نہیں تھا
اونچی سی حویلی میں اترتا رہا شب بھر
کٹھیا میں میری چاند نے جھانکا بھی نہیں تھا
کس جرم میں چھینی گئیں مجھ سے میری آنکھیں
اِن میں تو کوئی خواب سجایا بھی نہیں تھا
منصف میرا مجرم کا طرف دار بنے گا
اس طرح تو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا
ہم جس کے حوالے سے ہوئے شہر میں بدنام
اُس شخص کو ہم نے کبھی دیکھا بھی نہیں تھا
ثمرین! وہی شخص ہمیں چھوڑ چلا ہے
جس کا کہ بچھڑنے کا ارادہ بھی نہیں تھا