وہ اپنی زباں سے مجھے کچھ بھی نہیں کہتے ہیں
خاموش نگاہوں سے مجھے دیکھتے رہتے ہیں
جب بات شروع کی ہمیشہ ہم نے شروع کی
ہم بولتے رہتے ہیں وہ خاموش رہتے ہیں
خاموش نگاہوں سے مجھے دیکھتے رہتے ہیں
ان کو یہ ڈر کہیں یہ شہرہ عام نہ ہو جائے
پر تولتا پنچھی کہیں بدنام نہ ہو جائے
وہ اس لئے سنی بھی ان سنی کئے دیتے ہیں
خاموش نگاہوں سے مجھے دیکھتے رہتے ہیں
حق تو ہے مگر مجھ سے ناراض نہیں ہوتے
میری خطاؤں کو بڑے آرام سے سہتے ہیں
خاموش نگاہوں سے مجھے دیکھتے رہتے ہیں
حسرت ہے مجھ سے وہ کبھی تکرار بھی کریں
لیکن میری ہر بات پہ چپ چاپ ہی رہتے ہیں
خاموش نگاہوں سے مجھے دیکھتے رہتے ہیں
وہ خندہ جبیں، کم سخن وہ صاحب ادراک
سنتے ہیں میری بات پر اپنی نہیں کہتے ہیں
خاموش نگاہوں سے مجھے دیکھتے رہتے ہیں
وہ اپنی زباں سے مجھے کچھ بھی نہیں کہتے ہیں
خاموش نگاہوں سے مجھے دیکھتے رہتے ہیں