کب تک یونہی رکھوں گا میں جذبات چھپا کر
خاموش نگاہوں کو زباں میری عطا کر
تیرا یہ تغافل نہ کہیں جان میری لے
تدبیر ِ شناسائی سے مرنے کو جِلا کر
احسان ِ جنوں ہے کہ تجھے سوچ رہا ہوں
عقل تو کہتی ہے ذرا دور رہا کر
جو شمع جلائی تھی غم ِ ہجر کے مارے
پروانے نے رکھا ہے اسے وصل بنا کر
ہوجائے گا معلوم ہے کیا لطفِ تمنا
سجدے میں کبھی جاکے تو اک بار دعا کر
روتی ہوئی آتی ہے صدا پاس کہیں سے
اے مردِ مجاہد رخ ِ کشمیر و غزہ کر