کئی بار اس سے کہا ہے راہ بدل لو
خود کو بدل لو سوچ کو بدل لو
راہ ہے کٹھن ہماری ،راہ بدل لو
بہت بوجھ ہے جسمِ ناتواں پر کوئی اور ڈھونڈ لو
وہ کہتا ہے تو آؤ ہمارا دل بدل لو
ہماری سوچ کا رخ اس کی منزل بدل لو
ہماری وفا کو بے وفائی میں بدل لو
جو دیکھےتم سنگ سپنے وہ یا چشمِ خواب بدل لو
اتنے دور آکر کہتے ہو ہمسفر بدل لو
چاہا جسے دل نے دن رات،پل میں کیسے بدل لوں
جو کھائی جینے مرنے کی قسمیں کیسے بدل لوں
خان وہ نہیں بدلے گا خود کو بدل لو
تھام لو اس کا ہاتھ اپنی قسمت بدل لو