خزاں کے دور میں پھولوں کی آرزو کیسی

Poet: dr.zahid Sheikh By: Dr.Zahid Sheikh, Lahore Pakistan

جو مل سکیں نہ کبھی ان کی جستجو کیسی
خزاں کے دور میں پھولوں کی آرزو کیسی

لبوں کا کام نگاہوں سے کیوں نہیں لیتے
اثر جو کر نہ سکے پھر وہ گفتگو کیسی

تجھے اے دوست سلیقہ بھی دشمنی کا نہیں
یہ جنگ مجھ سے رقیبوں کے روبرو کیسی

معیار پیسہ ہو توقیر آدمی کے لیے
تو مفلسوں کی زمانے میں آبرو کیسی

جگر کا خون بھی دینے سے کچھ نہیں حاصل
شجر سے ٹوٹی ہوئی شاخ کی نمو کیسی

میں کیوں نہ مانگ لوں صحرا کی ریت سے پانی
جو پیاس اور بڑھا دے وہ آب جو کیسی

یہ کون جھونکے کی طرح گزر گیا زاہد
مہک ہواؤں میں پھیلی ہے چار سو کیسی

Rate it:
Views: 858
11 Feb, 2013