خطیب شہر سلامت سخن سلامت ہے
خطاب فہم سے عاری دہن سلامت ہے
لہو رگوں میں ہے رقصاں مگر سفید لہو
وہ مطمئن ہیں کہ ان کا بدن سلامت ہے
فضاؤں میں ہے اناالحق کی بازگشت اب بھی
سو اہل عشق کا دیوانہ پن سلامت ہے
بجھے ہیں چاند میرے گل ہوئے میرے سورج
بس اک امید کی ننھی کرن سلامت ہے
نکھار لے گئے باد سموم کے جھونکے
نہال گل کا مگر بانکپن سلامت ہے
یہاں گزر بھی چکے جان سے قافلے دل کے
پر ان کے ساتھ یہ اب بھی شکن سلامت ہے