خلاف ذوق محفلوں میں حاضری محال ہے
فضول سے یہ سر سبھی فضول ہی سی تال ہے
مکین قلب کی قسم شراب ہم نے پی نہیں
نہ جانے کیوں یہ لڑکھڑائی سی ہماری چال ہے
طلب ہے اضطراب کی تجھے میں چھوڑ کیوں نہ دوں؟
مرے سکوں ! مجھے بتا , کہ تیرا کیا خیال ہے
جسے بغیر موتی سیپ کہتے ہیں وہ آنکھ تو
رواں دموع سے رہی ہمیشہ مالا مال ہے
مرے خیال میں زمانہ سارا ہی اداس ہے
اگر ہو ٹوٹے تم تو نوشی ! اس میں کیا کمال ہے؟