خلش دل سے مرے یہ ایک انجانی نہیں جاتی
میری صورت کیوں آئینے میں پہچانی نہیں جاتی
ہمیشہ کے لیۓ اک در کے کیوں نہ ہو کے رہ جائیں
کہ اب در در کی ہم سے خاک تو چھانی نہیں جاتی
جئِے یا کوئی مر جاۓ انھیں کیا فرق پڑتا ہے
ہو چاہے کچھ بھی ،لیکن ان کی من مانی نہیں جاتی
کیا ہے مسخ یوں چہرہ ، زمانے نے محبت کا
کہ تصویرِ محبت آج پہچانی نہیں جاتی
تمہاری بے وفائی نے کیا ویران یوں دِل کو
ہزاروں کوششیں کیں ، اس کی ویرانی نہیں جاتی
اجر انسان کو اس کا خدا کی ذات دیتی ہے
کبھی بھی رائگاں تو اس کی قربانی نہیں جاتی
کوئی رادھا سے کہہ دے لوٹ کر موہن نہ آئے گا
کحڑی ہے کس لئے پنگھٹ پہ دیوانی ، نہیں جاتی
ہے دل کا کیا کہ اس کا کام ہے نادانیاں کرنا
ہمیشہ دل کی ہر اک بات تو مانی نہیں جاتی