خلقت دنیا تو ہے ریاضتوں میں پڑی ہوئی
زیست تو ہے بس مسافتوں سے بھری ہوئی
یہ کمال فن بھی کس صورت میں ہے برپا
ہر ہنر میں تو ہے اک عادت بسی ہوئی
نہ کہو اس کو مست سرور پیکر
کائنات تو ہے بس جفا میں لگی ہوئی
یہ سرکشی نہیں کوئی اور نام دے لو
بے نیازی تو ہے اپنی فطرت میں رچی
سر جھکا کے بھی تو دیکھنا پڑے گا
کوئی تو ہے تصویر قلب ونظر میں بنی ہوئی