سندر نازک میٹھے خواب
کیا کیا روپ دکھاتے ہیں
روپ نگر کی وادی میں
دور کہیں لے جاتے ہیں
تعبیریں پانے کی دھن میں
کیا سے کیا ہو جاتے ہیں
تعبیروں میں کھو کر بھی
خواب ادھورے رہ جاتے ہیں
جاگی سوئی آنکھوں میں
خواب سجائے جاتے ہیں
جاگی سوئی سی آنکھیں
خوابوں میں کھوئی رہتی ہیں
آس کی ڈوری میں خوابوں کے
موتی پروئے جاتے ہیں
نیند کی سندر وادی میں
سپنے سنجوئے جاتے ہیں
خواب ہی بوئے جاتے ہیں
نازک سانچے خوابوں کو
یوں تو سندر ہوتے ہیں
لیکن ان کو چھولیں تو
ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں
شیشے سے نازک سپنے
چکنا چور ہو جاتے ہیں
تعبیروں کی چاہتے میں
کیا سے کیا ہو جاتے ہیں
ٹوٹ بکھر سے جاتے ہیں
خواب کسی غنچے کی مانند
بنا کھلے رہ جاتے ہیں
کھل جائیں تو پھول کی مانند
ٹوٹ کے بکھر جاتے ہیں
خواب ادھورے رہ جاتے ہیں
خواب ادھورے رہ جاتے ہیں