کیسے کیسے خواب دیکھے تھے ہم نے
دشمن بے حساب دیکھے تھے ہم نے
ہمیں تو مکمل چہرہ نہ دکھایا تھا کبھی
غیر کےساتھ بے حجاب دیکھے تے ہم نے
جس سے ملتا وہ اسی کا گن گاتا تھا
لہجے میں ادب و آداب دیکھے تھے ہم نے
اب وہ آسماں تک پہنچ گئے ہیں
جن کے حال خراب دیکھے تھے ہم نے
وقت گزارنے کے لیے کرتے ہیں محبت
کچھ ایسے بھی جناب دیکھے تھے ہم نے
بچھڑنے سے تازگی کھو گئی چہرے کی
جہاں پر اکثر گلاب دیکھے تھے ہم نے
وقت لوٹ کر نہیں آتا اچھا گزارنا تم
گفتگو کے یہ لب لباب دیکھے تھے ہم نے
میں ہر سانس کے ساتھ تجھے یاد کرتا ہوں اظہر
ٹوٹ گئے مل کر جو خواب دیکھے تھے ہم نے