رات میری آنکھوں میں
ایک خواب اُترا تھا
بادلوں کے سائے میں وادیاں تھیں پھولوں کی
خوشبوؤں کا جھونکا تھے
جھیل چاندنی کی تھی
اور دھنک کا راستہ تھا
اُس دھنک کے راستے پر
ہاتھ تھامے ہم دونوں
ساتھ ساتھ چلتے تھے
دن کی دھوپ نکلی تھی
خواب جل گیا میرا
راکھ سے بھری آنکھیں
جل گئیں میری آنکھیں
خواب یوں مرا میرا
مادرِ شکم ہی میں
کوئی بچہ مر جائے
گل کھلا بس اک لمحہ
اور پھر بکھر جائے
خواہشوں کے سینے میں
اپنے میں فن کر لوں گا
آرزو ں کا میں اپنی
خود گلا دبا دوں گا
سپنے مار ڈالوں گا
رات کو جنم لے کر میں
دن کو مرنے والے خوابوں کی
لاش ہاتھوں میں لئے
ٰیوں ہی مجھ چلنا ہے