اپنے سینے میں لگی آگ بجھالی جائے
پھر نئی دنیا یہاں کوئی بسا لی جائے
زہر پینے سے اگر جان نکل جاتی ہے
آج برسوں سے لگی پیاس بجھا لی جائے
آخری وقتوں میں شاید وہ کہیں مل جائے
کس طرح دل سے مرے خام خیالی جائے
اپنی خواہش کا گلا روز یہاں گھونٹا ہے
خواہشوں کی بھی یہاں قبر بنا لی جائے
لوگ ضدی ہیں یہ جینے نہیں دینگے ہم کو
اب کیا دنیا سے ہی جان چھڑا لی جائے
میری گردن میں پڑا طوق یہ ناکافی ہے
ایک زنجیر مرے پیروں میں ڈالی جائے
چھوڑ چکر یہ لکیروں کے سبھی جھوٹے ہیں
اپنے اعمال سے تقدیر جگا لی جائے
کون ہو گا ترے غم میں یاں پریشاں ارشیؔ
اپنے ہونٹوں پہ بھی مسکان سجا لی جائے