ھر لمحہ میری وفاؤں کا اعتراف یوں کیا
خود بھی حیران تھا ھوا جو انکشاف یوں کیا
نفرتوں کے بیج بو دئیے میرے ہی صحن میں
میرے ہی گھر کی فصیل میں شگاف یوں کیا
وحشت کی گرد چہرے کی پہچان نہ بنے
آئینے سے اپنے عکس کو پھر صاف یوں کیا
خط بھی جلا دئیے سبھی اور نام مٹا دئیے
میرے وجود سے اس نے انحراف یوں کیا
سب لوگوں نے ھاتھوں میں پتھر اٹھا لئیے
میرے شہر کے لوگوں کو خلاف یوں کیا