وہ مسیحا میرے ہر غم کی دوا ہو جیسے
میری کسی نیکی کی جزا ہو جیسے
اجنبی ہو کے وہ مانوس ہو گیا ایسے
مدت سے میرے دل میں رہا ہو جیسے
اک ستارہ جبیں یوں زندگی میں آیا ہے
شب تاریک میں مہتاب ملا ہو جیسے
دل کی ویرانیاں سمٹی ہوا کے جھونکے سے
دل کا آنگن گلوں کی باس سے مہکا جیسے
اس نے پھینکا تھا ایک خار مجھے ایسا لگا
میرے دامن میں کوئی پھول کھلا ہو جیسے
خود کو تنہائی کے زنداں میں قید کر ڈالا
مجھکو تم سے نہیں اب خود سے گلہ ہو جیسے
خود فراموش ہوں اک یاد رہ گئی باقی
کوئی پیمان تیرے ساتھ کیا ہو جیسے