خود کو آئینہ بنا کے وہ سنورنا چاہتے ہیں
اور کرچیوں کی طرح وہ بکھرنا چاہتے ہیں
کون کہتا ہے اَنھیں خود سے محبت ہو گئی ہے
وہ تو بس اہلِ وفا میں نام کرنا چاہتے ہیں
اب دَور دَور رہتے ہیں وہ پاس نہیں آتے ہیں
وہ کسی کے سحر سے شاید نکلنا چاہتے ہیں
جھومنے کے شوق میں دائروں میں گھومتے
خوب بہکے ہیں جو پہلے اب سنبھلنا چاہتے ہیں
نیند کے خمار میں دِن رات خوابوں میں رہے
اب وہ خوابوں سے حقیقت میں اَبھرنا چاہتے ہیں
دور سے آنکھوں میں سمندر اَتارنے کے بعد
اب وہ گہرے پانیوں میں خود اَترنا چاہتے ہیں
عظمٰی چمکتی دھوپ میں وہ دیر سے کھڑے تھے
اَن سے سبب پوچھا تو بولے ہم پگھلنا چاہتے ہیں