روپے ، منصب کے ، بدلے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
کچھ لوگ کتنا ، سستے میں خود کو بیج دیتے ہیں
شہرِ حَوس میں اِفلاس کا یہ عالم ہے
لوگ ٹکے ٹکے ، میں خود کو بیچ دیتے ہیں
کچھ اُصول بیچ کر خرید لاتے ہیں خواہشیں
کچھ خوف کے ، غلبے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
نام و نمود کے پردے پر دِکھنے کے لۓ
لوگ ، پردے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
ہم یہاں راہ تکتے ہیں منزلوں پر
اور مسافر ، رستے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
کبھی عشق ، کبھی رزق ، کبھی مجبوری کے نام پر
ہم کس کس ، دھوکے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
جن دیواروں تلے دب کر مرے ہیں ، چلو آج
اُسی احساس کے ملبے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
کچھ نۓ کی چاہت نے قیمت ہی گھٹاٸی ہے
چلو کہ دام ، پچھلے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
رہ گۓ تنہا تو کوٸی مفت میں نہ لے گا
ابھی سلسلہ ہے ، سلسلے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
اعزازِ مسلم نے ہمیں انمول کیا اور ہم
بنٹ کر ، فرقے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
”اخلاق“ یہ بے مول دنیا اُسے کب خرید سکتی ہے
جو گِر کر ، سجدے میں خود کو بیچ دیتے ہیں